لاہور کے پرانے وقتوں کے ہاتھی: کہاں سے آئے اور کہاں چلے گئے؟
Share
لاہور کے پرانے وقتوں میں ہاتھی ایک اہم سواری کا ذریعہ ہوا کرتے تھے جو مختلف تقریبات، شاہی جلوسوں اور عوامی اجتماعات میں استعمال ہوتے تھے۔ یہ ہاتھی زیادہ تر ہندوستان کے شمالی علاقوں سے لائے جاتے تھے، جہاں جنگلوں میں ان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لاہور میں مغل دور سے لے کر سکھ اور پھر برطانوی دور تک ہاتھی ایک اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ ان کو نہ صرف شاہی سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا بلکہ یہ طاقتور جانور سامان کی منتقلی، جنگی مقاصد، اور مختلف تقریبات میں رونق بڑھانے کے لیے بھی کام آتے تھے۔
ہاتھیوں کی موجودگی کا سب سے اہم دور مغل سلطنت کا تھا، جب ان کی سواریاں بادشاہی جلوسوں اور شاندار تقریبات کا حصہ بنتی تھیں۔ مغل بادشاہ، جیسے کہ اکبر اور جہانگیر، ہاتھیوں کو اپنی طاقت اور جاہ و جلال کی علامت سمجھتے تھے۔ لاہور، جو مغل دور میں ایک اہم ثقافتی اور سیاسی مرکز تھا، میں ہاتھیوں کی موجودگی عام تھی اور ان کا استعمال مختلف مواقع پر کیا جاتا تھا۔
سکھ دور میں بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہاتھیوں کو اپنی فوجی قوت کے ایک حصے کے طور پر استعمال کیا۔ ہاتھی جنگوں میں اور فوجی سازوسامان کو منتقل کرنے کے لیے بہت موزوں تھے۔ یہ دور ہاتھیوں کی اہمیت کا ایک اور دور تھا۔
برطانوی دور میں ہاتھیوں کا استعمال کم ہونا شروع ہوا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جدید ٹرانسپورٹ اور مشینری نے ہاتھیوں کی جگہ لے لی۔ ریل گاڑیاں، گاڑیاں، اور دوسرے مشینی ذرائع سفر اور سامان کی منتقلی کے لیے زیادہ مؤثر اور تیز رفتار ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ، ہاتھیوں کی تعداد میں بھی کمی ہونے لگی کیونکہ جنگلات کی کٹائی اور انسانی آبادی کے پھیلاؤ نے ان کے قدرتی مسکن کو محدود کر دیا۔
آج کے دور میں ہاتھی لاہور کی سڑکوں پر یا تقریبات میں نظر نہیں آتے۔ ان کی جگہ جدید سواریوں نے لے لی ہے، اور ہاتھی اب زیادہ تر چڑیا گھروں یا وائلڈ لائف پارکس میں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین نے ہاتھیوں کو پکڑنے، نقل و حمل کرنے اور انہیں انسانوں کے لیے استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اب ہاتھیوں کی دیکھ بھال اور ان کے قدرتی ماحول کی حفاظت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، عوامی آگاہی میں اضافے نے بھی لوگوں کو جنگلی حیات کی حفاظت کی طرف مائل کیا ہے۔ ہاتھیوں کے بارے میں یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ انہیں اپنے قدرتی مسکن میں رہنا چاہیے نہ کہ انسانوں کے تفریح یا کام کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
یوں لاہور کے پرانے وقتوں کے ہاتھی، جو کبھی شہر کی گلیوں اور بازاروں میں ایک عام منظر ہوا کرتے تھے، اب صرف تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ جدیدیت اور مشینی ترقی نے ان عظیم جانوروں کی جگہ لے لی ہے، اور اب وہ ایک قدیم روایت کی یادگار کے طور پر باقی ہیں۔
ہاتھیوں کی موجودگی کا سب سے اہم دور مغل سلطنت کا تھا، جب ان کی سواریاں بادشاہی جلوسوں اور شاندار تقریبات کا حصہ بنتی تھیں۔ مغل بادشاہ، جیسے کہ اکبر اور جہانگیر، ہاتھیوں کو اپنی طاقت اور جاہ و جلال کی علامت سمجھتے تھے۔ لاہور، جو مغل دور میں ایک اہم ثقافتی اور سیاسی مرکز تھا، میں ہاتھیوں کی موجودگی عام تھی اور ان کا استعمال مختلف مواقع پر کیا جاتا تھا۔
سکھ دور میں بھی مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہاتھیوں کو اپنی فوجی قوت کے ایک حصے کے طور پر استعمال کیا۔ ہاتھی جنگوں میں اور فوجی سازوسامان کو منتقل کرنے کے لیے بہت موزوں تھے۔ یہ دور ہاتھیوں کی اہمیت کا ایک اور دور تھا۔
برطانوی دور میں ہاتھیوں کا استعمال کم ہونا شروع ہوا۔ صنعتی انقلاب کے بعد جدید ٹرانسپورٹ اور مشینری نے ہاتھیوں کی جگہ لے لی۔ ریل گاڑیاں، گاڑیاں، اور دوسرے مشینی ذرائع سفر اور سامان کی منتقلی کے لیے زیادہ مؤثر اور تیز رفتار ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ، ہاتھیوں کی تعداد میں بھی کمی ہونے لگی کیونکہ جنگلات کی کٹائی اور انسانی آبادی کے پھیلاؤ نے ان کے قدرتی مسکن کو محدود کر دیا۔
آج کے دور میں ہاتھی لاہور کی سڑکوں پر یا تقریبات میں نظر نہیں آتے۔ ان کی جگہ جدید سواریوں نے لے لی ہے، اور ہاتھی اب زیادہ تر چڑیا گھروں یا وائلڈ لائف پارکس میں نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین نے ہاتھیوں کو پکڑنے، نقل و حمل کرنے اور انہیں انسانوں کے لیے استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اب ہاتھیوں کی دیکھ بھال اور ان کے قدرتی ماحول کی حفاظت کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ، عوامی آگاہی میں اضافے نے بھی لوگوں کو جنگلی حیات کی حفاظت کی طرف مائل کیا ہے۔ ہاتھیوں کے بارے میں یہ شعور بیدار ہوا ہے کہ انہیں اپنے قدرتی مسکن میں رہنا چاہیے نہ کہ انسانوں کے تفریح یا کام کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔
یوں لاہور کے پرانے وقتوں کے ہاتھی، جو کبھی شہر کی گلیوں اور بازاروں میں ایک عام منظر ہوا کرتے تھے، اب صرف تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں۔ جدیدیت اور مشینی ترقی نے ان عظیم جانوروں کی جگہ لے لی ہے، اور اب وہ ایک قدیم روایت کی یادگار کے طور پر باقی ہیں۔